infolinks

Friday, 27 December 2013

خواب ہی خواب کب تلک دیکھوں

خواب ہی خواب کب تلک دیکھوں
کاش تجھ کو بھی اک جھلک دیکھوں

چاندنی کا سماں تھا اور ہم تم
اب ستارے پلک پلک دیکھوں

جانے تو کس کا ہم سفر ہوگا
میں تجھے اپنی جاں تلک دیکھوں

بند کیوں ذات میں رہوں اپنی
موج بن جاؤں اور چھلک دیکھوں

صبح میں دیر ہے تو پھر اک بار
شب کے رخسار سے ڈھلک دیکھوں

ان کے قدموں تلے فلک، اور میں
صرف پہنائیِ فلک دیکھوں



صرف پہنائیِ فلک دیکھوں

No comments:

Post a Comment